بلد الامین ( امن والا شہر مکّہ ) اور یہاں یہ سب
کیسے ؟
---------------------------------------------------------------
Please
read it first then read QUESTION
اس سوال کو کرنے سے پہلے ایک
وضاحت ضروری ہے - اھلا'' کے
فورم
سے جو معلومات آپ تک پہنچائی جاتی ہے اسمیں مقصد صرف آپ تک بنیادی معلومات
فراہم کرنا ہوتا ہے اور تمام مسلمان بھائی بہنوں میں آپس میں محبت کے
جذبات پیدا کرنے ہوتے ہیں اور میں ذاتی طور سے اپنے آپ کوصرف مسلمان تصور
کرتا ہوں اور دیں اسلام کے کسی خاص مسلک سے منسلک نہیں کرتا اور مجھے جو
چیز جہاں سے اچّھی معلوم ہوتی ہے اپنا لیتا ہوں اور یہی وجہہ ہے کے میرے
حلقہ یاران میں سب ہی شامل ہیں - میں تمام رائج مسالک پر یقین رکھنے والے
بھائی بہنوں کو جو شرک نہ کرتے ہوں ، الله کو ایک مانتے ہوں اور نبی محمّد
صلی الله کو آخری الله کا رسول مانتے ہوں، اپنا بھائی تصور کرتا ہوں کیوں
کے میرا یقین کامل ہے کہ یہ سب راستے الله ہی کے جانب جاتے ہیں - انداز
جدا جدا ہیں - اور میں سمجھتا ہوں کہ آج کا دور میں ہم کسی مسلکی احتلافات
کے متحمل نہی ہو سکتے
-ہوسکتا ہے ہم سے فقہی اعتبار سے
کچھ غلطیاں
بھی ہو جاتی ہوں لیکن بنیاد تو بہرحال درست ہی ہے - الله پاک نے تو غیر
مسلمین تک کو برا کہنے سے روکا ہےاور جب کہ یہ تو اذانوں کی آواز پر مسجد
کر جناب دوڑ لگانے والے ہمارے بھائی ہیں - اور کیا خوب لگتا ہے مسجد
الحرام میں ارر مسجد نبوی میں جب ہمارے ایک جانب ہاتھ چھوڑ کرے نماز پڑھنے
والا بھائی اور دوسری جانب رفع الیدین کرنے اور زور سے آمین بولنے والا
بھائی سلام پھیرنے کے بعد مسکرا کے ہماری جانب دیکھتا ہے اور مصاحفہ کرتا
ہے - دل میں کوئی عداوت اور رنجش باقی نہیں رہتی -
آج کا اھلا'' کا
سوال میں نے نئی نسل کو صرف ایک تاریخی حقیقت سے روشناس کرانے کے لیے کیا
ہے - اور جب انشااللہ میں اسکا جواب دوں گا اسمیں بھی محتاط رہ کر صرف
اتنی حقیقت بیان کروں گا جتنی اس پر آشوب وقت میں ہماری نوجوان نسل کو
ضرورت ہے - اس لیے آپ میں سے جو ساتھ اس کا جواب جانتے ہوں وہ صرف محتاط
جواب دیں تاکہ نہ کسی کے دل آزاری ہو اور نہ کسی کا فیورازم ہو -
sawal
-----------------------
مکّہ
کو قرآن پاک میں بلد الامین کہا گیا ہے یعنی یہ امن والا شہر ہے اور اسی
وجہہ سے اس شہر میں دنیا کے دوسرے شہروں کی طرح کبھی کوئی افراتفری
ماشااللہ نظر نہیں آتی اور ہر طرح کا امن و سکون ہے یہاں -
لیکن
اوپر کی تصویر میں حرم مکّہ کے قریب ایک سڑک پر یہ سب کیا ہو رہا ہے - جو
بھی ہو رہا ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور جو اس کے بعد ہوا وہ بھی ایک تلخ
حقیقت ہے -
کیا آپ بتا سکتے ہیں یہ کیا
ہورہا ہے اور یہ کس سن میں ہوا اور اس واقعہ میں کونسی تلخ حقیقت پوشیدہ ہے
__________________________________________________________
جواب حاضر ہے
============
٣١
جولائی ١٩٨٧ کا دن مکّہ مکرمّہ جیسے پر امن شہر کی تاریخ کا ایک تکلیف دہ
دن تھا - اس تکلیف دہ دن کا ذکر میں نے گرفتہ دل کے ساتھ اھلا''کے اس سوال
جواب کے سلسلے میں صرف دو وجوہات کی بنا پر کیا -
اول تو یہ کہ
ہماری نوجوان نسل اس سانحے کی تلخ تاریخ کو جان سکیں اور دوسرے یہ کہ میں
اھلا'' کے پلیٹ فارم سے آپکو اس سانحے کے ایک ایسی نادر تصویر دکھلا سکون
جو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا تک کے پاس بھی موجود نہیں -
٣١ جولائی
١٩٨٧ کو مکّہ میں حرام سے باہر کچھ سو حاجیوں نے امریکا اور اسرئیل کے
مسلمانو پر بڑھتے ہوے مظالم پر مظاہرہ کیا - سڑکوں پر یہ پر امن مظاہرہ
تھا - سعودی سیکورٹی فورس کا کہنا تھا کہ مکّہ کے پر امن شہر میں یہ طریقہ
کر کچھ مناسب نہیں - یہ اس شہر کے تقدس کے منافی ہے -
دونوں اطراف
سے مقصد بظاھر نیک تھا لیکن طریقہ کار پر اختلاف تھا - مظاہرین کا کہنا
تھا وہ پر امن مظاہرہ کر کے دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے امریکی اور
اسرئیلی مظالم آشکار کرنا چاہتے ہیں - سعودی حکام کو مقام پر اختلاف تھا
کہ مکّہ جیسا شہر اس کے لیے موزوں نہیں -
اور پھر وہ ہوگیا
جو نہیں ہونا چاہیے تھا - سعودی فورس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ ہو گئی
اور بد قسمتی سے ٤٠٢ ( چار سو دو ) لوگ اس میں ہلاک ہو گیے جسمیں ٢٧٥ ( دو
سو پچھتر ) ایرانی حاجی ، ٨٥ ( پچاسی ) سعودی فورس کے لوگ اور ٤٢
( بیالیس) دوسرے ملکوں کے حاجی
ہلاک ہوے - ٦٤٩ ( چھ سو انچاس ) لوگ زخمی بھی ہوے -
اس
سانحہ میں جو لوگ ہلاک ہوے وہ سب مسلمان تھے - وہ وہ لوگ تھے جو اذانوں کی
آواز پر مسجد کے جانب بھاگتے ہیں - جو ایک الله کے آگے رکوع و سجود کرتے
ہیں - اس سانحہ میں کوئی یہودی ، کوئی نصرانی یا کوئی ہندو ہلاک نہی ہوا -
ہم مسلکی جھنڈوں کے نیچے پرورش
پانے والوں نے اپنی اپنی ٹیلی شیٹ پر شائد یہ درج کیا ہو کہ اس سانحہ میں
کل
چار سو دو ہلاک ہونے والوں میں اتنے سنی مرے . اتنے شیعہ ، اتنے دیوبندی
ہلاک ہوے ، اتنے بریلوی . اتنے اہل حدیث جن بحق ہوا اور اتنے ہمبلی - لیکن
مزے کی بات یہ ہے کہ یہود اور نصارا نے اپنی ٹیلی شیٹ پر صرف یہ لکھا ہوگا
کہ آج چار سو دو مسلمان ہلاک ہو گیے - اور شائد تھوڑا سا مسکرایا بھی ہو -
انکو
اس سے غرض نہیں کہ وہ سنی تھے یا شیعہ یا دیوبندی یا بریلوی یا اہل حدیث -
وہ تو یہ جانتے ہیں کہ یہ سب محمّد صلی الله علیہ وسلم کو آخری نبی ماننے
والے وہ مسلمان ہیں جو اگر ایک ہو گیے تو پھر انکی اس دنیا میں دل نہیں
گلنی -
آج ہم جو اذانوں پر دیوانہ وار
مسجدوں کی جانب بھاگتے ہیں
اور مختلف فرقوں میں بٹے ہوے ہیں وہ ایک بات کا تہیہ کر لیں لہ ہم ضرور
ایک دوسرے کا قتل کریں ، ایک دوسرے کی جان کے پیاسے بنیں گے . ایک دوسرے
کو کافر بھی قرار دیں گے لیکن اس سے پہلے ہم اپنے ازلی دشمن جس کے لیے
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے وہ کبھی تمہارے دوست نہیں
ہو سکتے، انکا متحد ہو کے قلع قمع نہیں کر دے تے -
اور قلع قمع
کرنے سے بہتر ہے کہ ہم خود متحد ہوکر انکے لئے دعا کیوں نہیں کرتے کہ الله
تعالی ان کافروں کو جو دنیاوی علوم اور تیکنالوجی میں طاقتور ہیں، انکو
ہدایت دے ، انھیں ایمان کی روشنی عطا فرمایے اور انکی طاقت سے اسلام کو
پروان چرھایے - ہمارے پیارے نبی سیدنا محمّد صلی الله علیہ وسلم نے بھی تو
یہی دعا مانگی تھی کہ " یا الله دونوں عمروں میں سے کسی ایک کو مسلمان کر
دے تاکہ انکا رعب اور دبدبہ مسلمانون کے خلاف استمال ہونے کے بجاے
مسلمانوں کے حق میں استمال ہو - "
نوٹ :
(میں نے یہ سب کچھ لکھ تو دیا ہے
لیکن میں کم علم سا انسان ہوں - ضروری نہیں آپ میرے بات یا راے سے متفق
ہوں. -
جزاک الله خیر -)